لاہور(شہزاد ملک) صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے منحرف اراکین کے بارے میں سپریم کورٹ میں بھجوائے جانے والے ریفرنس کی سپریم کورٹ سے واضح رائے آ جانے کے بعد ملکی سیاست میں ایک مرتبہ پھر سیاسی و آئینی ہلچل میں مزید تیزی آ گئی ہے اور ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب جو پہلے سے ایک آئینی بحران کا شکار بنا ہوا تھا اس میں مزید آئینی و قانونی بحث میں اضافہ ہو گیا ہے ، اس تازہ سیاسی صورت حال کے بعد اب تمام سیاسی جماعتوں کی نظریں الیکشن کمیشن پر مرکوز ہو گئی ہیں کیونکہ اصل فیصلہ تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے اور اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کردیا جاتا ہے تو پھر ایسی صورت حال میں پنجاب کا سیاسی منظر نامہ یقینی طور پر تبدیل ہو کررہ جائے گا۔
دوسری جانب اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ سیاسی صورت حال کے باوجود بھی وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز شریف محفوظ ہاتھوں میں ہیں تو یہ بے جا نہ ہو گا۔تاہم اس نئی سیاسی صورت حال کے بعد پنجاب اسمبلی میں ایک مرتبہ پھر نمبرز گیم نئے سرے سے اہمیت بھی اختیار کر جائے گی اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فیصلے کی صورت میں ایک مرتبہ پھر نئی بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ اس ممکنہ فیصلے کے بعد پنجاب کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا۔ سپریم کورٹ کی واضح رائے سامنے آجانے کے بعد اب (ن) لیگ کے چار منحرف اراکین اسمبلی بھی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں ڈال سکیں گے،تاہم اگر ایوان میں موجود اراکین کے تحت ہونے والی ووٹننگ کا رزلٹ اگر برابر آ جاتا ہے تو اس صورت حال میں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری بھی اپنا فیصلہ کن ووٹ کاسٹ کر سکیں گے جو یقینی طور پر ایسی صورت حال میں نہ صرف ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر جائے گا بلکہ ایسی صورت میں” ڈپٹی سپیکر کا یہ ووٹ ایک فیصلہ کن ووٹ بن جائے گا“۔ واضح رہے کہ ووٹ برابر آنے کی صورت میں اسمبلی کے رولز آف پروسیجر کے مطابق آئینی و قانونی طور پر ڈپٹی سپیکر اور سپیکر بھی اپنا ووٹ دال سکتے ہیں اور ایسی صورت حال میں ان پر کوئی بھی شق لاگو نہیں ہو سکتی کیونکہ اسمبلی رولز ان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں مگر چونکہ سپیکر تو پہلے سے ہی قائد ایوان کے امیدوار ہیں وہ تو بطور امیدوار اپناووٹ کاسٹ کریں گے مگر ڈپٹی سپیکر کے ووٹ کی ایسی صورت حال میں اپنی ہی اہمیت بن جائے گی اور اگر ڈپٹی سپیکر مسلم لیگ( ن) کا کھل کر ساتھ دیتے ہیں تو پھر حمزہ شہباز شریف دوبارہ وزیراعلی پنجاب منتخب ہوجائیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل 16 اپریل کو وزیراعلی پنجاب کیلئے ہونیوالے انتخابات میں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری اور آزاد رکن چوہدری نثار نے اپنا اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا تھا۔واضح رہے کہ اس وقت حکومتی اتحاد 177 اراکین اسمبلی پر مشتمل ہے جس میں مسلم لیگ( ن) کے 165،پیپلزپارٹی کے 7، 4 آزاد اور ایک راہ حق پارٹی کا رکن اسمبلی شامل ہے جبکہ تحریک انصاف کے 25 منحرف اراکین اور ڈپٹی سپیکر کو نکال کر 157 ووٹ باقی رہ جاتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی واحد اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے پاس 10 ووٹ ہیں۔
اگرالیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کے ان 25 منحرف اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کر دیا جاتا ہے تو پھر پنجاب کا ایوان 346 ارکان پر مشتمل ہو جائے گا اور اگر مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے 5 نئے ارکان ایم پی اے بن بھی جائیں تو تب بھی اپوزیشن کے کل ارکان کی تعداد 172 ہو جائے گی اور اگر موجودہ حکومت کے 4 منحرف ارکان ان کو ووٹ نہ بھی دیں تو تب بھی حکومتی اتحاد کے 173 ووٹ رہ جائیں گے اس طرح سے حکومتی اتحاد کو ایک ووٹ سے پھر بھی برتری حاصل ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے تا حال سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے بھجوائے گئے 25منحرف ارکان اسمبلی کے حوالے سے اپنا کوئی بھی فیصلہ نہیں دیا ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی بھی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی اصل صورت حال واضح ہو گی کیونکہ اب تک کی تمام باتیں مفروضوں پر مبنی ہیں لیکن ان سب مفروضوں اور باتوں کے باوجود پنجاب کی سیاست میں ایک بڑی ہلچل مچ گئی ہے اور ہر ایک کا موضوع بحث یہی ہے کہ پنجاب کا نیا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) والوں کا کہنا ہے کہ کچھ دنوں تک آئینی بحران پرقابو پا لیا جائے گا اور جب یکم جون کو پنجاب کے نئے گورنر اپنا حلف اٹھا لیں گے تو اس کے ساتھ ہی پنجاب کے آئینی بحران کے تھم جانے کا امکان ہے ۔